یٰبَنِی
آدَمَ قَدْ أَنْزَلْنَا عَلَیْکُمْ لِبَاساً یُوَارِیْ
سَوْآتِکُمْ وَرِیْشاً․ (اے اولادِ آدم! ہم نے تمہارے لیے لباس پیدا کیا
جو تمہارے ستر کو چھپاتا ہے اور موجب زینت بھی ہے) آیت شریفہ
میں حضرتِ حق جَلَّ مجدُہ نے تمام اولاد ِ آدم کو خطاب فرمایا کہ
تمہارا لباس قدرت کی ایک عظیم وبیش قیمت نعمت ہے اس
کی قدر کرو، صرف اہل اسلام کو یعنی دین سماوی اور
قانونِ الٰہی کے ماننے والے کو خاص نہیں کیا؛ بلکہ پوری
انسانیت کو شامل فرمایا، اس بات کی طرف اشارہ کرنے کے لیے
کہ لباس اور سترپوشی انسان کی فطری خواہش اور ضرورت ہے، مزید
آیت کریمہ میں اس طرف بھی اشارہ موجود ہے کہ ہم نے تمہاری
صلاح وفلاح کے لیے ایسا لباس اُتارا ہے جس سے تم اپنے قابلِ شرم اعضا
چھپاسکو اور سترپوشی کے علاوہ ایک مزید فائدہ لباس سے اور حاصل
ہوتا ہے کہ انسان اپنی ہیئت اورحالت کو مہذب وشائستہ بنانے کے لیے
لباس سے زینت وجمال حاصل کرسکتا ہے نیز دوسری آیت میں
ارشاد باری تعالیٰ ہے: یٰبَنِیْ آدَمَ
خُذُوْا زِیْنَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ (اے آدم کی اولاد! لے لو اپنی آرائش ہر نماز کے
وقت) حضرت علامہ شبیر احمد صاحب عثمانی تحریر فرماتے ہیں کہ یہ
آیت اُن لوگوں کے رد میں نازل ہوئی ہے جو کعبہ کا طواف برہنہ
ہوکر کرتے تھے اور اسے پرہیزگاری اور اللہ سے قریب ہونے کا ذریعہ
سمجھتے تھے، اللہ رب العزت نے ان کو بتلایا کہ یہ کوئی نیکی
نہیں اورنہ ہی اس کا تقویٰ سے تعلق ہے، خدا کی دی
ہوئی پوشاک جس سے تمہارے بدن کا ستر اور آرائش ہے، وہ اس کی عبادت کے
وقت دوسرے اوقات سے بڑھ کر قابلِ استعمال ہے؛ تاکہ بندہ اپنے پروردگار کے دربار میں
اُس کی نعمتوں کا اثر لے کر حاضر ہو۔ (تفسیر عثمانی سورة
الاعراف:۳۱)
پس دنیا کی ہر مہذب اور
باشعور قوم سترپوشی اور لباس کو لازم قرار دیتی ہے اور لباس کے
بغیر ستر کھول کر رہنا پسند نہیں کرتی، اطرافِ عالم میں
شاید کوئی انسانی آبادی اور بستی ایسی
ہو جو اس فطری قانون اور ضابطہٴ حیاتِ انسانی سے انحراف
کرتی ہو؛ البتہ جنگلی اور وحشی قوموں کے بارے میں ضرور
سنا ہے جو انسانیت سے عاری ہوتی ہیں اور اُن کا بود وباش
اور رہن، سہن بالکل جانوروں جیسا ہوتا ہے وہ لباس کیا؟ کسی بھی
تہذیبی عمل اور قانونِ انسانیت سے واقف نہیں ہوتیں؛
لہٰذا اُن سے بحث ہی نہیں۔ بات تو باشعور اور خردمند
معاشروں کی چل رہی ہے، وہ سب اس فطری خواہش وضرورت کا پاس ولحاظ
رکھتے ہیں اور ہر مہذب معاشرہ وماحول مردوں کی بہ نسبت عورتوں کی
سترپوشی پر زیادہ توجہ مرکوز کرتا ہے؛ لیکن آج تہذیب
وتمدن اور ترقی و شائستگی کا مفہوم بدل کر دَجَّالی قومیں
اور شیطانی ذُرّیت فطرت سے بغاوت کررہی ہیں۔
ربِ کائنات کا
پسندفرمودہ لباس:
اللہ رب العزت کا کوئی نبی
اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم
کسی معاشرے اور تہذیب سے متاثر نہیں ہوتا؛ بلکہ ہر ہر مسئلے اور
حکم میں مامور من اللہ ہوتا ہے، اسی لیے حضرات انبیاء علیہم
الصلوٰة والتسلیم اپنے ماننے والوں اور پیروکاروں کو فطری
ضروریات اور مواقع پر بھی خدائی ہدایات اور قوانین
الٰہی کی روشنی میں راستے اور طریقے بتاتے
اور سکھاتے ہیں، حد تو یہ ہے کہ سونے، جاگنے، کھانے، پینے اور
بول وبراز جیسے معمولی اور چھوٹے امور میں بھی خدائی
احکامات سے ہدایات جاری کرتے ہیں اور خود بھی عمل کرتے ہیں،
اسی لیے آقائے مدنی صلی
اللہ علیہ وسلم نے جب اپنے جاں نثاروں کو یہ باتیں تعلیم
کیں تو دشمنانِ خدانے ٹھٹا کیا تھا کہ لو دیکھ لو یہ کیسا
خدا کا پیغمبر ہے ایسی چھوٹی چھوٹی باتیں
سکھاتا ہے؟ ان عقل کے اندھوں کو یہ کہاں معلوم تھا کہ دین اور مذہب
ہمہ گیر اور ہمہ جہت ہوتا ہے، انسانی زندگی اور حیات کے
کسی شعبہ اور گوشہ کو تشنہ نہیں چھوڑا جاتا؛ بلکہ ہر مسئلہ کا حل بیان
کردیا جاتاہے جب نبی اور رسول تمام امور میں مامور من اللہ ہوتا
ہے تو لباس اور سترپوشی جیسے اہم مسئلہ میں کیوں نہ خدائی
حکم موجود ہوگا؛ ایسا ہوناکہ لباس کے حوالے سے کوئی غیبی
اشارہ اور الہام باطنی نبی کے پاس نہ ہو اور وہ اپنی قوم وملت
کے معاشرہ اور ماحول سے متاثر ہوکر انھیں کا لباس اپنا لے اور اپنی
امت کو بھی اسی کا حکم کرے، ایسا ہونا عقل ونقل دونوں اعتبار سے
بعید معلوم ہوتا ہے ، نقلاً تو اس لیے کہ حضرت عبداللہ بن عمرو بن
العاص فرماتے ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
انَّ ھٰذِہ مِنْ ثِیَابِ الْکُفَّارِ فَلاَ
تَلْبَسْھا (مسلم شریف
کتاب اللباس والزینة) (یہ کافروں کا لباس ہے اس کو مت پہننا) جو انسان
ماحول ومعاشرے سے متاثر ہوکر لباس استعمال کرتا ہو وہ ایسا جملہ کیسے
کہہ سکتا ہے؟ جب عام آدمی اور انسان اپنے قول وعمل میں ایسا
کھلا تضاد نہیں کرسکتا تو نبی اور رسول سے ایسا معاملہ کیوں
کر ممکن ہے؟ اسی طرح ذخیرئہ احادیث میں بکثرت ایسی
روایات موجود ہیں جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ:
یہ لباس جائز ہے وہ ناجائز ہے، فلاں بہتر ہے اور فلاں غیر مناسب ہے،
کہیں تشبہ بالکفار کی ممانعت فرمائی تو کہیں یہود
ونصاریٰ اورمشرکین کی مخالفت کا حکم فرمایا، جو نبی
اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم
ایسے احکامات اور ہدایات بیان فرمائے وہ خود کافر معاشرہ اور
مشرکانہ ماحول سے کیسے متاثر ہوسکتا ہے؟
اور عقلاً اس لیے کہ جو نبی
اسلام اور پیغمبر برحق معاش اور معاد کے تمام شعبوں میں غیبی
اشارات اور باطنی الہامات سے سرفراز کیاجاتا ہو، جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم حیاتِ
انسانی کے ہر ہر گوشہ پر انسان کی ہدایت ورہنمائی خدائی
پیغامات اور آسمانی ہدایات کی روشنی میں کرتا
ہو وہ سترپوشی اور لباس کے مسئلہ میں موجودہ معاشرہ سے کیسے
مرعوب ہوسکتا ہے؟
لہٰذا معلوم یہ ہوا کہ جو سترپوشی
کاطریقہ اور جولباس خالق کائنات کو پسند تھا اور ہے، وہی اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار
فرمایا اور جیسے حبیب اِلٰہ العالمین قیامت
تک کے نبی ہیں ایسے ہی قیامت تک اللہ تعالیٰ
کا پسندیدہ لباس بھی وہی ہے جو سنتی لباس ہو؛ چنانچہ ان
لوگوں کی بات کوئی وزن اور حیثیت نہیں رکھتی
جو یہ کہتے پھرتے ہیں کہ کوئی لباس شرعی نہیں؛ بلکہ
پیغمبر خدا اگر یورپ اور امریکا میں مبعوث ہوتے تو وہاں
کے معاشرہ اور تہذیب کے مطابق لباس اختیار فرماتے اور اسی لباس
کو شرعی لباس کا درجہ دیتے، یہ سب سراسر جہالت وگمراہی پر
مبنی باتیں ہیں۔
لباسِ نبوی
علی صاحبہا الصلوٰة والسلام:
آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا لباسِ مبارک
نہایت سادہ اور معمولی ہوتا تھا، فقیرانہ اور دُرویشانہ
زندگی تھی، زیادہ تر اور عام طور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لباس میں
تہہ بند، چادر، کرتہ ، جبہ اور کمبل ہوتے تھے اور فقر ودرویشی کی
حالت یہ ہوتی تھی کہ مبارک لباس میں پیوند لگے ہوتے
تھے، رنگت میں آپ صلی اللہ علیہ
وسلم کو سبز لباس پسند تھا؛ البتہ نبی رحمت اور ہادیِ برحق صلی اللہ علیہ وسلم کی پوشاک
عموماً سفید ہوتی تھی، آنحضور
صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک یمنی چادر تھی
جس پر سبز اور سرخ دھاریاں تھیں وہ آپ کو بہت پسند تھی؛ لہٰذا
تقریب وغیرہ کے موقع پر آپ اس کو استعمال فرماتے تھے، وہ بردیمانی
کے نام سے مشہور تھی۔
فائدہ: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خالص سرخ
لباس استعمال کرنے سے منع فرمایا ہے۔
ٹوپی: نبوی لباس میں
ٹوپی کا جہاں تذکرہ ملتا ہے تو ایسی ٹوپی کا ملتا ہے جو
سر سے چپٹی ہوئی، اور حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم کے حوالے سے بھی
اسی وصف کی ٹوپی کا استعمال ثابت ہے، صحابہٴ کرام کی ٹوپیاں سرسے لگی
ہوئی ہوتی تھیں۔
عمامہ: حضور علیہ الصلوٰة
والسلام پگڑی اور عمامہ استعمال فرماتے تھے اور دونوں شانوں کے درمیان
اس کاشملہ لٹکایا کرتے تھے البتہ کبھی دائیں اور بائیں
جانب بھی ڈال لیتے تھے اور کبھی تھوڑی کے نیچے لپیٹ
لیا کرتے تھے، آنحضرت صلی
اللہ علیہ وسلم عمامہ کے نیچے ٹوپی ضرور استعمال فرماتے تھے اور
یہ ارشاد فرماتے تھے کہ: ہم میں اور مشرکین میں یہی
فرق اورامتیاز ہے کہ ہم پگڑی کے نیچے ٹوپیاں استعمال کرتے
ہیں اور وہ نہیں کرتے (ابوداؤد شریف کتاب اللباس) حدیث شریف
میں یہ بھی آیا ہے کہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ:
حق تعالیٰ شانہ نے غزوئہ بدر اورحنین میں میری
امداد کے لیے جو فرشتے اتارے وہ عمامے باندھے ہوئے تھے۔
لنگی: ہادیِ انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام کپڑے
ٹخنوں سے اوپر رہتے تھے اور بالخصوص تہہ بند نصف پنڈلی تک ہوتا تھا۔
پائیجامہ: حدیث پاک
میں ہے کہ نبی دوجہاں صلی
اللہ علیہ وسلم نے منیٰ کے بازار میں پائیجامہ بکتا
ہوا دیکھا، دیکھ کر پسند فرمایا اور ارشاد فرمایاکہ : اس
میں ازارکی بہ نسبت ستر زیادہ ہے، آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پائیجامہ
خریدنا بھی ثابت ہے؛ البتہ استعمال کرنا ثابت نہیں ہے۔ (سیرت
مصطفی ج۳ ص۲۸۱ وفتاویٰ دارالعلوم ج۱۶، ص۱۵۵)
موزے: محبوبِ رب العالمین
سے موزے استعمال کرنا بھی ثابت ہے اور آپ موزوں پر مسح فرماتے تھے۔
خِرقہ: لباسِ نبوی میں
خرقہ یعنی کملی کا تذکرہ بھی بکثرت ملتا ہے؛ بلکہ خرقہ تو
تمام انبیاء علیہم الصلوٰة والسلام کا لباس رہا ہے روایت
ہے:
قال ابن مسعود: کانَتِ الأنْبِیَاءُ یَرْکَبُوْنَ
الحُمُرَ ویَلْبَسُونَ الصُّوفَ ویَحْتَلِبُوْنَ الشَّاةَ (رواہُ الطیالسی)
(حضرت عبداللہ بن
مسعود نے فرمایاکہ: حضرات انبیاء
گدھوں کی سواری فرماتے تھے، اون پہنا کرتے تھے اور بکریوں
کادودھ پیتے تھے)
وعنہ صلی اللہ علیہ
وسلم قال: کان علی موسیٰ یوم کَلَّمہ ربُّہ کساءُ صوفٍ
وکمةُ صوفٍ وجبةُ صوفٍ وسراویلُ صوفٍ وکان نَعْلاَہُ مِنْ حِمَارٍ مَیّتٍ
رواہ الترمذی وقال غریب والحاکم صححہ علی شرط البخاری (سیرتِ
مصطفی ج۳، ص۲۸۳ بحوالہ زرقانی)
(اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جس روز حضرت موسیٰ کو حضرتِ حق جل شانہ سے شرفِ ہم کلامی حاصل ہوا اُس روز ان کا
کمبل اون کا تھا، ان کی ٹوپی، جبہ اور پائیجامہ سب اون کے تھے
اور جوتے مردار گدھے کی کھال کے تھے)
حضرت مولانا شبیراحمد عثمانی صاحب
رحمة اللہ علیہ حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمة اللہ علیہ
کے حوالے سے لکھتے ہیں: حق تعالیٰ شانہ نے اپنے حبیب کو یٰأیُّہَا
الْمُزَمِّلُ سے خطاب کرکے ایک
پوری سورتِ مبارکہ خرقہ پوش دُرویشوں کے لیے نازل فرمائی
جس میں ان کے لیے بہت سے شرائط ولوازم ذکر فرمائے ہیں۔
(ترجمہ شیخ الہند تفسیر سورة المزمل)
شیطانی
حملہ:
انسانیت کا دشمن اور حضرت آدم اور
اولادِ آدم کا ابدی مخالف لعین مردود کا سب سے پہلے جو انسان اور مٹی
کے پُتلے پر حملہ ہوا اُس کا اثر بد اور بُرا انجام ننگا اور برہنہ ہونے کی
صورت میں ظاہر ہوا کہ جنت الفردوس اور بہشت بریں میں ابوالبشر
اور خلیفة اللہ فی الارض حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا رضی
اللہ عنہا بڑے سکون ووقار کے ساتھ رہ رہے تھے؛ لیکن انسانیت اور بشریت
سے ابدی حسد رکھنے والا ملعون اس کو پسند کہاں کرسکتا تھا؛ چنانچہ اس نے
وساوس اور تصرفات کرکے دونوں کو بہکانا شروع کیا اور زوجین اغواءِ شیطانی
کا شکار ہوگئے کہ خدا کی نافرمانی سرزد ہوئی جس کے نتیجہ
میں دونوں ننگے ہوگئے اور قابلِ شرم اعضا کھل گئے جن کو درختوں کے پتوں سے
چھپاتے پھرتے تھے؛ کیوں کہ اِن اعضا کا دوسروں کے سامنے کھولنا یا کھل
جانا انتہائی ذلت ورُسوائی اور نہایت بے حیائی کی
علامت ہے اور مختلف النوع شروفساد کا مقدمہ ہے۔
فائدہ: بعض خودساختہ دانشوروں
اور فلاسفروں کا یہ کہنا کہ: انسان ابتداءً ننگا پھرا کرتا تھا، پھر ارتقائی
منازل طے کرنے کے بعد اُس نے لباس ایجاد کیا یہ سرتاپا بے اصل
اور نادانی وجہالت ہے؛ کیوں کہ حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت
حوا کے مذکورہ واقعہ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ سترپوشی اور لباس انسان کی
فطری خواہش اور پیدائشی ضرورت ہے جو روزِ اوّل ہی سے
انسان کے ساتھ ساتھ ہے۔
دورِ حاضر کی
حالتِ زار:
عصرِ حاضر فتنہ وفساد، اخلاقی پستی
وتباہی، اسلامی اور مذہبی اقدار و روایات کی پامالی
اور بے راہ روی وغلط کاری کا ہے، آج کل جہاں اور بہت سی خرابیاں
اور خرافات نسلِ انسانی کی پستی کا سبب ہیں وہیں
سترپوشی اور لباس میں بھی انسانیت، حیوانیت
سے ہم آہنگ ہے، شیطان اور اس کی ذریت اولادِ آدم اور بناتِ
حوَّا کو برہنہ یا نیم برہنہ کرکے انسانیت کو شرمسار کرنے پر
پوری طاقت وقوت صرف کررہی ہے، کبھی تہذیب و شائستگی
اور ترقی وخوشحالی کے نام سے بناتِ حوا کو برہنہ یا نیم
برہنہ حالت میں گلی، کوچوں، سڑکوں اور چوراہوں میں لے آتے ہیں
اور کبھی آزادیِ نسواں کا دلفریب اور خوش نما نعرہ دے کر
پارکوں، نائٹ کلبوں، ہوٹلوں، کھیلوں کے میدانوں اور فلمی ڈراموں
میں عورتوں اور خاص طور پر نوعمر بچیوں کو ننگا نچاتے ہیں، کبھی
اس شیطانی مشن کو ترقی کا لبادہ اڑھادیا جاتا ہے تو کبھی
روشن خیالی سے موسوم کیا جاتا ہے؛ لیکن یہ انسان
اور وہ بھی دین ومذہب کا پاسبان اس طاغوتی چال اور شیطانی
جال کے دامِ فریب میں بڑی آسانی سے پھنس جاتا ہے، آج مغربی
تہذیب وتمدن، بود وباش اور کاٹ چھانٹ کو نوجوان نسل خواہ لڑکے ہوں یا
لڑکیاں دوڑکر اختیار کررہے ہیں، نوجوان لڑکیوں نے ان کی
نقل کرتے ہوئے اپنے مستور جسم اور باپردہ بدن کو برملا کھول ڈالا، سرسے اوڑھنی
اور دوپٹہ بالکل غائب ہوگیا ، باقی لباس بھی یا توپورے
جسم کے لیے ساتر اور چھپانے والا ہی نہیں ہے دونوں ہاتھ اوپر تک
کھلے ہوئے ہیں، دونوں پاؤں رانوں تک کھلے ہیں اور حد تو یہ ہے
کہ پیٹ اور پیٹھ بھی کھل گئے ہیں اور یا بہت زیادہ
باریک لباس ہے، جس سے جسم چھپتا ہی نہیں؛ بلکہ صاف نظر آتا ہے ایسے
لباس کا مقصد سترپوشی نہیں محض زینت ہوتی ہے اور اگر لباس
میں مذکورہ دونوں کمی نہ ہوں تو تیسری کمی اور نقص یہ
ہے کہ وہ اتنا چست اورٹائٹ ہوتا ہے کہ جس سے بدن کا نشیب وفراز خوب ظاہر
ہوتا ہے، ایسا لباس جس میں مذکورہ تینوں باتوں میں سے کوئی
بھی ہو اس کو پہننے والی عورتوں پر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی
ہے؛ لہٰذا نبی کی لعنت اور بددعاء سے بچنے کے لیے مذکورہ
لباس کو استعمال نہ کریں۔
یہی حال نوجوان لڑکوں کا ہے
کہ مغربی اقوام کے ساتھ قدم بہ قدم اور شانہ بہ شانہ چلنے کی ہوڑ اور
ہوس میں ہمارے نوجوان اپنی تہذیب، اپنا خاندانی تمدن اور
اسلامی روایات کو بالائے طاق رکھ کر ایسا لباس زیب تن
کرتے ہیں جو جسمانی خدوخال کو چھپانے کے بجائے اور زیادہ نمایاں
کرتا ہے؛ حالاں کہ دوسری قوموں سے مرعوب ہوکر ان کی تہذیب، اُن
کا طرز اپنانا تشبہ میں آتا ہے جس پر احادیث میں سخت ترین
وعیدیں آئی ہیں کہ جو انسان دنیا میں جس قوم
کی شباہت اختیار کرے گا وہ کل قیامت میں انہی کے
ساتھ اُٹھایا جائے گا اور اس کا حشر انھیں کے ساتھ ہوگا، اللہ تعالیٰ
شانہ تمام امت کی حفاظت فرمائے، آمین۔
فریضہٴ
سترپوشی:
مذہبِ اسلام اور شریعت محمدی
نے تمام شیطانی راستے اور دجالی شرور وفتن کے دروازوں کی
طرح اس راستے اور دروازہ کو بھی بند کرنے کے لیے ایمان کے بعد
سترپوشی کو فرض قرار دیا، نماز، روزہ اور تمام ارکانِ اسلام بعدمیں
لباس پہلے فرض وواجب ہے۔
لباس کے آداب:
(۱) نیا لباس پہنتے وقت اللہ تعالیٰ کی تعریف
اور حمد بیان کرے (دعاء پڑھے) خلیفہ ثانی حضرت فاروق اعظم رضی
اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب کوئی شخص نیا لباس پہنے تو اس کو چاہیے
کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم کے ارشاد کے مطابق یہ دعاء پڑھے: الحمدُ لِلہِ الَّذِیْ
کَسَانِيْ مَا أُوَارِيْ بِہ عَوْرَتِيْ وَأتَجَمَّلُ بِہ فِيْ حَیَاتِی․
(اللہ تعالیٰ کا شکر واحسان ہے جس نے ایسا لباس عطا فرمایا
جس سے میرا بدن بھی چھپ جاتاہے اور میری زندگی میں
زیبائش بھی حاصل ہوتی ہے) (معارف القرآن ج۳،ص۵۳۴
و ۵۳۵)
(۲) نیا لباس بنانے کے وقت پُرانا لباس فقراء اور مساکین
پر صدقہ کردے؛ کیوں کہ حضرت نبی پاک
صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص نیا
لباس پہننے کے بعد پرانا جوڑا غریب ومسکین کو صدقہ کردے وہ اپنی
موت وحیات کے ہرحال میں اللہ تعالیٰ کی ذمہ داری
اور پناہ میں آگیا۔ ( ابن کثیر عن مسند احمد بہ حوالہ
معارف القرآن ج۳/۵۳۵)
(۳) ایسا لباس ہرگز استعمال نہ کیا جائے جس سے تکبر اور
غرور ٹپکتا ہو؛ کیوں کہ کسی بھی انسان کو تکبر اور گھمنڈ زیبا
نہیں اور اگر کوئی نادان اور بے وقوف اپنی حماقت کا ثبوت دیتے
ہوئے غرور کا ارتکاب کرتاہے تو حدیث ہے کُلْ مَا شِئْتَ وَالْبَسْ مَا
شِئْتَ مَا أخْطَأَتْکَ اثْنَتَانِ: سَرَفٌ أوْ مَخْیَلَةٌ (صحیح البخاری ج۲، ص۸۶۰)
ترجمہ: جو چاہو
کھاؤ اور جو چاہو پہنو (البتہ) دو چیزیں تمھیں خطا اور گناہ میں
مبتلا نہ کردیں: (۱) فضول خرچی (۲) تکبر اور گھمنڈ۔
(۴) لباس اختیار کرنے میں تنعم و اسراف سے اجتناب کرے ؛
کیوں کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے انَّ الْمُبَذِّرِیْنَ
کَانُوْا اخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِ (بنی اسرائیل آیت ۲۷) فضول خرچی اور اسراف کرنے والے شیطانوں کے چیلے
ہیں۔
(۵) دشمنانِ اسلام یہود ونصاریٰ اور کفار ومشرکین
کے لباس سے اجتنابِ کلی ہونا چاہیے؛ کیوں کہ اُس کو اختیار
کرنے میں اُن کی مشابہت ہوگی جس سے بڑی شدومد کے ساتھ باز
رکھا گیا اللہ کے نبی صلی
اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَھُوَ
مِنْھُمْ (مسند احمد ابن
حنبل ج۲ ص۵۰) جو بندئہ خدا کسی
جماعت اور قوم کی شباہت اپنائے گا وہ اسی میں سے ہے یعنی
قیامت میں اُسی قوم کے ساتھ اٹھے گا۔
(۶) تہہ بند یا اس کی جگہ استعمال ہونے والا کوئی
بھی کپڑا (پائیجامہ وغیرہ) نصف پنڈلی تک ہو یا کم
از کم ٹخنوں سے اوپر ہو؛ کیوں کہ ٹخنوں سے نیچے لٹکانے پر بڑی
سخت وعید ہے ارشادِ نبوی ہے: مَا أَسْفَلَ مِنَ الْکَعْبَیْنِ
مِنَ الازَارِ فِي النَّارِ
(بخاری شریف ) ٹخنوں کا جو حصہ ازار کے نیچے رہے گا وہ حصہ جہنم
میں جائے گا۔
(۷) ریشمی کپڑا مردوں کو استعمال کرنا جائز نہیں
ہے، اس سے بچنا چاہیے، حدیث نبوی ہے: قال رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم انَّمَا یَلْبَسُ الْحَرِیْرَ فِي الدُّنْیَا
مَنْ لاَ خَلاَقَ لَہ فِي الْآخِرَةِ (بخاری ومسلم) فرمایا جو شخص دنیا ہی
میں ریشم کا کپڑا پہنے گا کل قیامت میں اس کا کوئی
حصہ نہیں ہوگا۔
(۸) خالص سُرخ اور زرد لباس مردوں کے لیے غیرمناسب
اورمکروہ ہے، فتاویٰ شامی میں ہے کُرِہَ لُبْسُ المُعَصْفَرِ وَالْمُزَعْفَرِ
الْأَحْمَرِ وَالْأصْفَرِ لِلرِّجَالِ (فتاویٰ دارالعلوم، ج۱۶، ص۱۴۷
بحوالہ الدرالمختار مع رد المحتار)
(۹) مرد عورتوں کا لباس اور عورتیں مردوں کا لباس استعمال نہ
کریں؛ کیوں کہ ایساکرنے والے نبی کی بددعاء کے
مستحق ہوں گے حدیث ہے لَعَنَ النَّبِيُّ صَلَّی
اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْمُتَخَنِّثِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ
وَالْمُتَرَجّلاَتِ مِنَ النِّسَاءِ وَقَالَ أخْرِجُوْھُمْ مِنْ بُیُوْتِکُمْ (بخاری شریف رقم الحدیث ۵۵۴۷) اللہ کے رسول صلی
اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کی مشابہت اختیار کرنے والے مردوں اور
مردوں کی شباہت اختیار کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی
اور فرمایاکہ: اے مسلمانو! تم ایسے لوگوں کو اپنے گھروں سے نکال دو۔
(۱۰) ایسا لباس جو جسم اور بدن سے چپکا ہوا ہو اور بہت زیادہ
چست ہو ایسے لباس سے مردوں اور عورتوں دونوں کو بچنا چاہیے بالخصوص
عورتوں کو؛ کیوں کہ حدیث پاک میں ایسے لباس والی
عورتوں کو لباس سے عاری اور برہنہ کہا گیا ہے جن کے لیے دوزخ کی
وعید ہے نِسَاءٌ کَاسِیَاتٌ عَارِیَاتٌ (مسلم شریف رقم ۲۱۲۸) دوزخ میں ایسے ایسے لوگ جائیں گے جن میں
وہ عورتیں بھی ہیں جو کپڑا پہننے کے باوجود ننگی ہوں گی۔
(۱۱) اتنا باریک لباس جس میں جسم کے اعضاء نظر آتے ہوں
عورتوں کے لیے ایسا لباس بالکل جائز نہیں، اور مردوں کو لنگی
یا پائیجامہ ایسا پہننا جائز نہیں البتہ دوسرے کپڑے باریک
ہوں تو مضائقہ نہیں کیوں کہ مردوں کا ستر صرف تہہ بند یا پائیجامہ
سے چھپ جاتا ہے۔ (فتاویٰ دارالعلوم، ج۱۶، ص۱۴۸)
(۱۲) مرد اور عورت ہمیشہ ایسا لباس وملبوس استعمال کریں
جو ان کی جنس کے اعتبار سے خوبصورتی اور زینت کا سبب بنے اور ایسا
لباس ہرگز اختیار نہ کریں جس میں بے ہودگی اورحماقت ٹپکتی
ہو؛ کیوں کہ ارشادِ باری تعالیٰ یٰبَنِي آدَمَ
خُذُوْا زِیْنَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ کی تفسیر میں مفسر قرآن حضرت مفتی محمد
شفیع صاحب عثمانی فرماتے ہیں: اس آیت میں لباس کو زینت
سے تعبیر فرمایا جس سے ایک مسئلہ یہ بھی نکلتا ہے
کہ نماز میں افضل اور اولیٰ یہ ہے کہ صرف سترپوشی
پر کفایت نہ کی جائے؛ بلکہ اپنی وسعت کے مطابق زینت اختیار
کی جائے۔ نواسہٴ رسول حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی
عادت تھی کہ نماز کے وقت اپنا سب سے بہتر لباس پہنتے تھے اور فرمایا
کرتے تھے کہ: اللہ تعالیٰ جمال کو پسند فرماتے ہیں؛ اس لیے
میں اپنے رب کے لیے زینت وجمال اختیار کرتا ہوں پھر یہ
آیت کریمہ تلاوت فرماتے۔ (معارف القرآن ج۳، ص۵۷۳)
اور خود رب کائنات نے لباس کو سترپوشی
کا ذریعہ اور سبب بتاتے ہوئے آرائش اور زینت فرمایا ہے ، ارشاد
باری ہے یٰبَنِیْ آدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَیْکُمْ
لِبَاسًا یُّوَارِیْ سَوْآتِکُمْ وَرِیْشًا (سورة الاعراف آیت۳۱)
مسائل:
(۱) مرد کا ستر جس کو ہرحالت میں چھپانا فرض ہے، ناف سے
گھٹنوں کے نیچے تک ہے، اس حصہٴ بدن میں اسے کوئی عضو
حالتِ نماز میں کھل جائے تو نماز فاسد ہوجاتی ہے اور عام حالت میں
کھل جائے تو گناہ ہوگا۔ (معارف القرآن ج۳ ص۵۴۴)
(۲) عورت کا تمام بدن ستر ہے؛ البتہ چہرہ، دونوں ہتھیلیاں
اور دونوں قدم ستر سے مستثنیٰ ہیں، یعنی حالت نماز
میں یا عام حالت میں ضرورت سے ان کو کھول دیا جائے تو
نماز درست ہوگی اور کوئی گناہ بھی نہیں ہوگا؛ لیکن یہ
مطلب نہیں کہ چہرہ وغیرہ کھول کر عورت غیر محرموں کے سامنے بے
روک ٹوک نکلے اس کی قطعاً اجازت نہیں ہے۔(فتاویٰ
دارالعلوم ، ج۱۶، ص۱۸۶)
فائدہ: حدیث شریف میں
آیا ہے کہ جس گھر میں عورت ننگے سر ہو اُس گھر میں نیکی
اور فرشتے نہیں آتے۔ (معارف القرآن ج۳ ص۵۴۴)
(۳) ایسا لباس زیب تن کرکے نماز پڑھنا مکروہ ہے جسے پہن
کر انسان اپنے دوستوں اور عوام کے سامنے جانے میں عار اور شرم محسوس کرتاہو
جیسے صرف بنیان پہن کر نماز پڑھنا (معارف القرآن ج۳ ص۵۴۴)
(۴) نماز میں پردہ اور ستر پوشی کے علاوہ زینت
اختیار کرنے کا بھی حکم ہے پس ننگے سر نماز پڑھنا، مونڈھے یا
کہنیاں کھول کر نماز پڑھنا مکروہے ہے۔ (معارف القرآن ج۳ ص۵۴۴)
(۵) کوٹ پتلون پہن کر اگرچہ نماز ہوجاتی ہے، مگر تشبہ بالکفار
کی وجہ سے ان کا پہننا مکروہ وممنوع ہے۔ (فتاویٰ
دارالعلوم، ج۱۶، ص۱۵۴)
(۶) جس علاقہ میں جس لباس کا رواج ہو عورتوں کو اس کے پہننے میں
کوئی شرعی ممانعت نہیں ہے؛ البتہ کوئی بھی لباس ہو یہ
ضروری ہے کہ کشف عورت اس میں نہ ہو اور عورتوں کے لیے افضل وہ
لباس ہے جس میں ستر (پردہ) زیادہ ہو جیسے کرتا، پاجامہ اور
اوڑھنی۔ (فتاویٰ دارالعلوم، ج۱۶، ص۱۵۸)
(۷) سرپرٹوپی کی جگہ کوئی چھوٹا سا رومال یا
کپڑا باندھ کر نماز پڑھنا مکروہ اور بے ادبی ہے۔ (معارف القرآن ج۳ ص۵۴۴)
(۸) جس لباس میں واجب الستر اعضاء کا حجم اور بناوٹ نظر آتی
ہو، مرد اور عورت دونوں کے لیے حرام ہے اور اس کی طرف دیکھنا بھی
حرام ہے،اور مروجہ لباس میں اس قباحت کے علاوہ کفار کے ساتھ مشابہت بھی
ہے، اس لیے جائز نہیں۔ (احسن الفتاویٰ، ج۸، ص۸۲ کتاب الخطر
والاباحة)
***
---------------------------------------
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 7 ،
جلد: 96 ، شعبان-رمضان 1433 ہجری مطابق جولائی 2012ء